زندگی نامہ

ماں کی وفات کے بعد

بعثت کے دسویں سال بہت تھوڑے فاصلے پر جناب ابوطالب اور جناب خدیجہ کی یکے بعد دیگرے وفات ہوجاتی ہے۔ (1) ان دو غم انگیز واقعات نے جناب پیغمبر خدا(ص) کی روح کو صدمہ پہنچایا اور آپ نے اس سال کا نام عام الحزن رکھا۔ (2)

کیونکہ ایک طرف تو آپ کا ایک غم گسار اور داخلی و خارجی امور میں مشیر اور آپ کی اولاد کی ماں جناب خدیجہ کا انتقال ہوجاتا ہے اور دوسری طرف آپ کا ایک بہت بڑا حامی اور مددگار اور مدافع جناب ابوطالب اس دنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں، جس سے آپ کی یکدم داخلی اور خارجی اوضاع دگرگوں ہوجاتی ہیں۔

ان دو حامیوں کے فوت ہو جانے سے دشمنوں کے حوصلے بلند ہوگئے اور اس طرح آپ کو تکالیف دینا شروع کردیں کبھی آپ کو پتھر مارتے اور کبھی آپ کے سر و صورت پر خاک ڈالتے اور کبھی برا بھلا کہتے اور کبھی آپ کے جسم مبارک کو زخمی کرتے اکثر اوقات آپ غمگین اور پمردہ گھر میں داخل ہوتے اور اپنی بیٹی سے ملاقات کرتے، جب کہ جناب فاطمہ (ع) اپنی ماں کے فراق میں مرجھائے ہوئے چہرے سے اشکبار ہوتیں، جناب فاطمہ (ع) جب کبھی گھر سے باہر جاتیں تو ناگوار حوادث سے دوچار ہوتیں کبھی دیکھتیں کہ لوگ آپ کے باپ کو اذیت دے رہے ہیں اور آپ کو برا بھلاکہہ رہے ہیں۔ ایک دن دیکھا کہ دشمن مسجدالحرام میں بیٹھے آپ کے والد کے قتل کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔ روتے ہوئے گھر واپس آئیں اور دشمنوں کے منصوبے سے باپ کو آگاہ کیا۔(3)

ایک دن مشرکین میں سے ایک آدمی نے جناب رسول خدا (ص) کو گلی میں دیکھا تو کوڑا کرکٹ اٹھا کر آپ کے چہرے اور سر پر ڈال دیا۔ پیغمبر(ص) نے اسے کچھ نہ کہا اور گھر چلے گئے۔ آپ کی دختر جناب فاطمہ (ع) جلدی سے آئیں اور پانی لاکر اشک بار آنکھوں سے آپ کے سر مبارک کو دھویا۔ پیغمبر خدا(ص) نے فرمایا: بیٹی روو مت، مطمئن رہو خدا تیرے باپ کو دشمنوں کے شر سے محفوظ رکھے گا، اور کامیابی عطا فرمائے گا۔ (4)

ایک دن پیغمبر خدا (ص) مسجد میں نماز میں مشغول تھے، مشرکین کا ایک گروہ آپ کا مذاق اڑا رہا تھا اور آپ کو اذیت دینا چاہتا تھا، ان مشرکین میں سے ایک نے اونٹ ذبح کیا تھا، اس کی اوجھڑی اٹھاکر ”جو کثافت اور خون سے پر تھی” آپ کی پشت مبارک پر جب آپ سجدے میں تھے ڈال دیا۔ جناب فاطمہ (ع) اس وقت مسجد میں موجود تھیں جب آپ نے یہ منظر دیکھا تو آپ کو بہت قلق ہوا اور آپ کی پشت مبارک سے اوجھڑی کو ہٹا کر دور پھینک دیا۔ پیغمبر اسلام(ص) نے سجدہ سے سر اٹھایا اور نماز کے بعد اس گروہ پر نفرین کی۔(5)
جی ہاں جناب زہرا(ع) نے اپنے بچپن میں اس قسم کے ناگوار واقعات دیکھے اور اپنے باپ کی ان میں مدد کی، اور اپنے کے لئے مادری سلوک کیا کرتی تھیں۔

جناب خدیجہ کے انتقال کے بعد بہت سے گھر کے کام کاج کی ذمہ داری جناب فاطمہ (ع) کے کندھے پر آن پڑی تھی۔ کیونکہ یہ توحید کا وہ پہلا گھر تھا جس کا سردار مرچکا تھا، اس گھر میں جناب فاطمہ (ع) کے علاوہ اور کوئی مددگار موجود نہ تھا، تاریخ سے یہ واضح نہیں ہوتا کہ اس زمانے میں پیغمبر خدا (ص) کے گھر کی حالت کیسی رہی اور ان کی زندگی کس طرح گزری۔ لیکن بصیرت کی آنکھوں سے اس گھر کی رقت بار حالت کو دیکھا جا سکتا ہے۔

پیغمبر اسلام (ص) نے جناب خدیجہ کے بعد سورہ سے شادی کرلی۔ اس کے علاوہ اور کئی عورتیں تھیں۔ جو تمام کی تمام جناب فاطمہ (ع) سے اظہار محبت کیا کرتی تھیں، لیکن پھر بھی ایک یتیم بچے کے لئے بہت سخت گزرتا ہے جب وہ اپنی ماں کی جگہ کو خالی دیکھے اور اس کی جگہ کسی اور عورت کو رہتا دیکھے۔ سوکن خواہ کتنی ہی مہربان اور اچھی کیوں نہ ہو پھر بھی وہ محبت اور خالص شفقت جو ماں کی طرف سے ہوتی ہے وہ اس بچے کو نہیں دے سکتی۔ صرف ماں ہی ہے کہ جو ناز و نعمت، شفقت و محبت سے بچے کے دل کو تسکین دے سکتی ہے۔

جناب فاطمہ (ع) کو جس شدت سے محرومی کا احساس ہو رہا تھا اسی شدت سے پیغمبر(ص) بھی آپ سے اظہار محبت فرماتے تھے، کیونکہ پیغمبر خدا(ص) جانتے تھے کہ فاطمہ (ع) کو ماں کی کمی کا احساس ہے اور اس کمی کو پورا ہوتا چاہیئے، اس وجہ سے اور دوسری کئی وجوہ کی بناء پر روایت میں وارد ہوا کہ پیغمبر(ص) جب تک اپنی بیٹی کو نہ چوم لیتے رات کو نہیں سوتے تھے۔(6)

یہ تھوڑے سے آٹھ سال کے واقعات ہیں جو پیغمبر(ص) کی بیٹی جناب فاطمہ (ع) پر مکہ معظمہ میں وارد ہوئے ہیں۔

واضح رہے اگر چہ اس قسم کے واقعات اور حوادث جو کسی بچے کی روح پر وارد ہوں تو اس کے اعصاب کو مختل کردیتے ہیں اور اس کی فکر صلاحیت اور جسمی قوت کو کم کردینے کے لئے کافی ہوا کرتے ہیں لیکن اس قسم کا حکم ہر ایک انسان کے لئے کرنا صحیح نہیں ہے۔

کیونکہ یہی ناگوار واقعات اور دائمی گرفتاریاں اور متصل مبارزہ ممتاز اور شائستہ انسانوں کی روح کو تقویت پہنچاتے ہیں اور اس کی اندرونی استعداد اور پوشیدہ صلاحیتوں کو اجاگر کرتے ہوئے مشکلات کے مقابلے کے لئے ثابت قدم بنا دیتے ہیں۔ جب تک پتھر پر غیر معمولی حرارت معدن میں وارد نہ ہو وہ خالص اور بیش بہا قیمت سونا بن کر نہیں نکلتا۔

جی ہاں جناب زہرہ(ع) کی زندگی کے دوران خطرناک حوادث اور بحرانی اوضاع نے آنجناب کی روح کو نہ صرف ضعیف نہیں کیا بلکہ الٹا اپنے وجود کے گوہر کو صیقل کر کے تابناک و درخشان بنادیا اور آپ کو ہر قسم کے حالات سے مبارزہ کرنے کے لئے آمادہ اور طاقتور بنادیا تھا۔

[1] مناقب شہر ابن آشوب۔ ج1۔ ص 174۔
[2] مناقب شہر ابن آشوب۔ ج 1۔ ص 174۔
[3] مناقب شہر ابن آشوب۔ ج1۔ ص 71۔
[4] تاریخ طبری۔ ج 2۔ ص 344۔
[5] مناقب شہر ابن آشوب۔ ج1۔ ص 60۔
[6] کشف الغمہ۔ ج2۔ ص 93۔

فہرست

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button